۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
رہبر انقلاب اسلامی

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی نے تبریز کے عوام کے 29 بہمن سن 1356 بمطابق 18 فروری سن 1978 کے قیام کی سالگرہ کے موقع پر جمعرات 17 فروری 2022 کی صبح صوبہ مشرقی آذربائيجان کے عوام کو ویڈیو لنک کے ذریعے مخاطب کیا۔ انھوں نے تبریز کے عوام کے قیام کو ایرانی قوم کی عظیم تحریک کا تسلسل اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تمہید قرار دیا۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطاب، رہبر انقلاب اسلامی نے تبریز کے عوام کے 29 بہمن سن 1356 بمطابق 18 فروری سن 1978 کے قیام کی سالگرہ کے موقع پر جمعرات 17 فروری 2022 کی صبح صوبہ مشرقی آذربائيجان کے عوام کو ویڈیو لنک کے ذریعے مخاطب کیا۔ انھوں نے تبریز کے عوام کے قیام کو ایرانی قوم کی عظیم تحریک کا تسلسل اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تمہید قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم.

الحمدللہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّیّبین الطّاھرین و لعنۃ اللہ علی اعدائھم اجمعین.

کاش اس بات کا امکان ہوتا کہ پچھلے برسوں کی ہی طرح اس امام بارگاہ میں آپ اہل تبریز اور اہل آذربائيجان کے بابرکت تشریف آوری کا مشاہدہ کرتے! اس سال بھی ہم قریب سے آپ کی زیارت نہ کر سکے۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال آپ سب کو توفیق عطا کرے گا، آپ کی مدد کرے گا اور اس نے جس طرح سے ہمیشہ آذربائيجان اور تبریز کے عوام پر اپنا فضل و کرم جاری رکھا ہے، اسے بہترین طریقے سے آگے بھی جاری رکھے گا۔

یہ نشست، 29 بہمن سن 1356 (18 فروری سن 1978) کی مناسبت سے ہے جو ہماری اور آپ کی سالانہ ملاقات ہے اور درحقیقت یہ دن، انقلاب کی تاریخ میں تبریز کی درخشندگي کا دن ہے؛ 18 فروری کا دن، ہمارے انقلاب کی پوری تاریخ میں ایک باافتخار اور تبریز کی درخشندگي کا دن ہے۔

اس سے پہلے کہ اس دن یعنی 18 فروری کی مناسبت سے کچھ باتیں بیان کروں، چونکہ آج پندرہ رجب اور اعمال، عبادت اور خدا کے حضور گریہ و زاری کا دن ہے، میں یہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں، ہمارے عزیزوں کو اپنی روحانی اور معنوی بنیادوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے؛ ضرورت تو ہم سبھی کو ہے، لیکن نوجوان روحانیت اور معنویت کے عناصر کو زیادہ اور بہتر انداز میں اپنے وجود میں اتار لیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس دن کے اعمال کو مجھ جیسا بھی کوئي انسان انجام دے لے لیکن جب یہی اعمال کوئی جوان انجام دیتا ہے تو اس کے عوض جو فیض وہ حاصل کرتا ہے، وہ اس فیض سے کہیں زیادہ ہے جو مجھ جیسے افراد حاصل کرتے ہیں؛ یہ نوجوانی کی خاصیت ہے۔ میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ آج کے موقع کو، جو رجب کی پندرھویں تاریخ ہے، غنیمت جانیں۔ البتہ آج کے اعمال کو تین دن کے روزوں سے جوڑا گيا ہے لیکن بغیر روزے کے بھی اور رجاء کے ارادے سے بھی عمل ام داوود کو انجام دیا جا سکتا ہے۔ خدا سے یہ رابطہ آپ کی زندگي کو برکت عطا کرتا ہے، ملک کو بھی برکت عطا کرتا ہے، انقلاب کے مستقبل کو بھی برکت عطا کرتا ہے۔

جہاں تک 18 فروری کے واقعے کی بات ہے تو سب سے پہلے تو یہ کہ انتیس بہمن کی تاریخ تبریز کے لیے اور ہم سب کے لیے شکرانہ ادا کرنے کی تاریخ ہے؛ میں اسی موضوع پر گفتگو کرنا چاہ رہا ہوں۔ شکرانے کا دن ہے؛ شکرانہ کیوں؟ اس لیے کہ اس دن تبریز میں ایک واقعہ پیش آيا جو انقلاب کے فتحیاب ہونے کا سبب بنا؛ یہ واقعہ اس بات کا موجب بنا کہ انقلاب اور انقلاب سے پہلے کی زمینی اور سیاسی کوششیں اور سرگرمیاں، نتیجہ خیز ہو جائيں؛ یہ تبریز کے 18 فروری کے واقعے کی خاصیت تھی؛ کیوں؟ کیونکہ یہ کام، ایک جدت طرازی تھی، ایک اہم قدم تھا جس نے سبھی کو قم کے انیس دی (نو جنوری سن انیس سو اٹھتر) کے قیام کو جاری رکھنے کا راستہ دکھا دیا اور سکھا دیا۔ اگر تبریز نے 18 فروری کو وہ عظیم کارنامہ انجام نہ دیا ہوتا تو ایرانی قوم کے لیے چہلم منانے اور جدوجہد جاری رکھنے کی روایت شروع نہیں ہو پاتی۔ جب تبریزیوں کی جدت عمل سے قم کے شہیدوں کا چہلم تبریز میں منایا گیا تو یہ ایک نمونۂ عمل بن گيا۔ دوسرے مختلف شہروں میں، یزد میں، کرمان میں، صوبۂ فارس کے شہروں میں اور دوسری مختلف جگہوں پر یہ کام شروع ہو گيا اور اس عمل نے عوام کے ہر طبقے کو جدوجہد اور انقلاب کے میدان میں پہنچا دیا۔ عوام کی یہی موجودگی، انقلاب کی فتح پر منتج ہوئي۔ اس انقلاب کی کامیابی، عوام کی میدان میں موجودگي اور سڑکوں پر نکل آنے کی وجہ سے تھی؛ یہ انقلاب بندوق، سیاست اور پارٹی بازی سے کامیاب نہیں ہوا بلکہ اس کی کامیابی کی اصل وجہ، عوام کی میدان میں موجودگي تھی۔ عوام کی موجودگي، اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے ہی ممکن ہوئي تھی، ان اقدامات کا آغاز تبریز سے ہوا، تبریز میں یہ جدت طرازی سامنے آئي۔ بنابریں آپ تبریز کے عزیز عوام سمیت ہم سب کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کے اس اقدام کو برکت حاصل ہوئي اور یہ انقلاب کے نتیجہ خیز ہونے پر منتج ہوا۔

تو 18 فروری کا دن، ایک واقعے کا دن ہے۔ آذربائيجان نے مختلف واقعات دیکھے ہیں اور تاریخ میں، کچھ صدیوں پہلے سے، جو مدت وثوق سے کہی جا سکتی ہے وہ تین چار صدیوں کی مدت ہے، آذربائيجان، قومی اتحاد اور قومی استقامت کا علمبردار تھا؛ یعنی آذربائيجان اور تبریز، ایرانی قوم کو متحد کرنے کا ایک بنیادی مقام اور مختلف واقعات کے مقابلے میں ایرانی قوم کو استقامت کی تعلیم دینے کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہ چیز، اس شہر اور اس صوبے کے لیے بڑی قابل فخر ہے بلکہ بہت بڑا افتخار ہے۔

یہ بیان کرنا بھی مناسب ہے کہ آذربائيجان کا ایک بڑا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ اہلبیت علیہم السلام سے عشق و محبت کا پرچم ہمیشہ آذربائیجان کے عوام کے ہاتھوں میں رہا ہے؛ یعنی ان صدیوں میں، جن کی طرف میں نے اشارہ کیا، کبھی بھی یہ پرچم آذربائيجان کے عوام کے ہاتھوں سے ہٹا نہیں ہے۔ بہت سے دوسرے شہروں میں بھی ایسا ہی ہے لیکن اس مسئلے میں آذربائيجان کی ایک خصوصیت ہے اور یہ بھی آذربائيجان کے بڑے افتخارات میں سے ایک ہے۔

خیر تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ انتیس بہمن کا قیام، جدوجہد کے تسلسل کا سبب بنا؛ آج میں اس 'تسلسل' کے بارے میں کچھ جملے عرض کرنا چاہتا ہوں۔

کسی بھی کام کا تسلسل، اس کی کامیابی کی کنجی ہے، اگر کوئي کام شروع ہوتا ہے لیکن جاری نہیں رہ پاتا، پہلے قدم کے بعد لگاتار اگلے قدم نہیں اٹھائے جاتے، تو وہ کام ناکام رہے گا، عبث ہو جائے گا، بے اثر ہو جائے گا۔ دنیا میں ایسی بہت سی تحریکیں اور انقلابات ہیں جن کا بہت اچھا آغاز ہوا، ان میں بڑے اہم قدم بھی اٹھائے گئے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے؛ کیوں؟ کیونکہ 'ارباب تحریک' – تحریک کے افراد یا تو تحریک کے رہنما ہیں یا پھر ان کے پیروکار اور عام لوگ ہیں جو ان کے پیچھے چلتے ہیں – یہ لوگ آگے بڑھنے اور راہ جاری رکھنے کے بجائے پیچھے ہٹ گئے؛ یا تھک گئے، یا ناامید ہو گئے، یا مادی کھیل میں مصروف ہو گئے، یا خوفزدہ ہو گئے یا داخلی اختلافات کا شکار ہو گئے؛ مختصر یہ کہ اگلے قدم نہیں اٹھا سکے، اس لیے ان کی تحریک کامیاب نہیں ہوئي۔ لہذا ہم کہتے ہیں کہ کام کا جاری رہنا اور کام کا تسلسل، کسی بھی کام کی کامیابی کی کنجی ہے۔

18 فروری کا واقعہ، عوام کی زمینی تحریک کے تسلسل کی بنیاد ہے۔ تبریز کے عوام نے ایسا کام کیا جس کی وجہ سے عوام کی زمینی تحریک شروع ہو گئی۔ تحریک اس سے برسوں پہلے سے موجود تھی، ملک کے گوشہ و کنار میں طرح طرح کی تحریکیں موجود تھیں لیکن زمینی سطح پر عوام کی موجودگي قم سے شروع ہوئي اور اگر تبریز کا واقعہ نہ ہوتا تو قم کے سانحے کو بھلا دیا جاتا؛ تبریزیوں نے تحریک کا تسلسل سبھی کو سکھا دیا اور 18 فروری کا واقعہ، اسی تسلسل کا آغاز اور اس عظیم کام کو دوام عطا کرنے کی شروعات تھی، جس کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس جدت عمل نے عوام کو میدان میں آنے کا حوصلہ عطا کیا، یہ اس بات کا سبب بنا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز، ہمیشہ سے زیادہ بلند آہنگ میں تمام ایرانی عوام تک پہنچے –اسی تبریز کے واقعے کے بارے میں امام خمینی نے کم از کم دو پیغام دیے، ایرانی قوم و ملت کے نام اور تبریز و آذربائيجان کے عوام کے نام(2) – اور انقلاب کا راستہ واضح ہو گیا، پتہ چل گيا کہ اگر اس انقلاب کو جاری رکھنا ہے تو کیا کرنا ہوگا۔ یہ چیز، 18 فروری نے سب کو سکھائي، اس نے دکھا دیا کہ اس طرح سے آگے بڑھنا ہوگا، میدان میں آنا ہوگا اور طاغوتی حکومت کی چکاچوندھ سے، جو حقیقت میں کھوکھلی تھی، ڈرنا نہیں ہوگا۔

تسلسل کا یہ مسئلہ جو ہم نے کہا کہ بہت اہم ہے، امام خمینی کی نظر میں بھی انقلابی پالیسیوں کی بنیادوں میں سے ایک تھا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد اور اسلامی نظام کی تشکیل کے بعد، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پوری کوشش یہی تھی کہ یہ کام جاری رہے۔ حقائق بیان کرنے والے ان کے بیانات، لگاتار سبھی کو حوصلہ عطا کرتے تھے، راستہ دکھاتے تھے، لوگوں کو اہداف کی یاد دہانی کراتے تھے کہ وہ یہ نہ بھولیں کہ اس جدوجہد اور اس تحریک کا ہدف کیا ہے اور اس طرح سبھی کو سرگرم عمل رکھتے تھے؛ یعنی امام خمینی نے انقلاب کی کامیابی کے بعد پہلے ہی قدموں میں اس اہم نکتے سے توجہ نہیں ہٹنے دی؛ یہاں تک کہ بعد میں جب وہ بیماری میں مبتلا ہوئے، اسپتال میں ایڈمٹ ہو گئے اور بے پناہ جسمانی مشکلات نے انھیں گھیر لیا، تب بھی انھوں نے لگاتار قدموں اور انقلابی تحریک کے تسلسل کے اس مسئلے کو فراموش نہیں کیا اور لگاتار اس کی یاد دہانی کراتے رہے؛ یہ اس بات کا سبب بنا کہ دشمن کے ہتھکنڈے ناکام ہو جائيں اور انقلاب زندہ رہے۔

میں ایک بار پھر تبریز کی ایک مثال دوں گا۔ سن انیس سو اناسی کے اواسط میں، تبریز کو ایک انقلاب مخالف حملے کا سامنا کرنا پڑا؛ کچھ سازشوں کے ذریعے، کچھ تمہیدوں کے ذریعے جو بعض جگہوں پر مندرج بھی ہیں، ان کے بارے میں لکھا بھی گيا ہے اور بہت سے لوگ جانتے بھی ہیں، پرانے لوگوں کو یاد بھی ہے کہ تبریز کو ایک انقلاب مخالف اقدام کا سامنا کرنا پڑا۔ خود تبریز میں بھی کچھ ناپسندیدہ عناصر تھے لیکن زیادہ تر باہر کے لوگ تھے جو تبریز میں داخل ہو گئے، تبریز میں ہنگامہ مچا دیا اور دارالحکومت سے بھی ان کی ایک طرح سے مدد کی جا رہی تھی، کچھ لوگوں کی طرف سے ہنگامہ مچانے والے ان افراد کی مدد کی جا رہی تھی۔ کچھ لوگ تشویش میں تھے؛ ہم بھی انقلابی کونسل میں اس وقت یہ مسئلہ پیش کر رہے تھے، بحث کر رہے تھے، کچھ لوگ بہت زیادہ فکر مند تھے؛ امام خمینی نے کہا کہ خود تبریز کے غیرت مند عوام اس کا علاج کر دیں گے، کسی کو بھی دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے؛ امام خمینی کا نظریہ یہ تھا۔ امام خمینی نے تقریر میں بھی یہ بات بیان کی تھی۔(3) انھوں نے کہا کہ دوسروں کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے، خود تبریز اس فتنے کی سرکوبی کر دے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ شہید مدنی، جو اس وقت شہید قاضی (رحمۃ اللہ علیہما) کے بعد تبریز کے امام جمعہ تھے، اس دن میدان میں موجود تھے، خود شہید مدنی میدان کے وسط میں تھے، ان کے آس پاس نوجوانوں کی تعداد ہر لمحہ بڑھتی جا رہی تھی، ہزاروں نوجوان ان کے ساتھ آ گئے اور انھوں نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ امام خمینی کا یہ قدم، ان کا یہ نظریہ، ان کی یہ روش، اس بات کا سبب بنی کہ اس طرح کی بڑی کامیابی حاصل ہو، یہ ایک قدم تھا، امام خمینی کے کام اس طرح کے ہوتے تھے۔

کام جاری رکھنے اور انقلابی تحریک کے تسلسل کے سلسلے میں امام خمینی کی تدابیر کی ایک بے حد اہم مثال وہ تدابیر تھیں جو انھوں نے مقدس دفاع کے دوران اختیار کی تھیں۔ بعض ہوائي اڈوں اور علاقوں پر صدام کا حملہ شروع ہونے کے پہلے دن سے لے کر آٹھ سالہ جنگ کے آخری دن اور قرارداد (598) قبول کرنے تک، امام خمینی لگاتار سپاہیوں کو، عوام کو، پشت پناہی کرنے والوں کو، ملکی حکام کو حوصلہ عطا کرتے رہے؛ درحقیقت امام خمینی نے ایرانی قوم پر مسلط کی جانے والی جنگ کو، ایرانی قوم کی طاقت و قوت کا ایک وسیلہ بنا دیا۔ اس وقت ملک کے اندر واقعی ہمارے ہاتھ خالی تھے، ہتھیار نہیں تھے، وسائل نہیں تھے، دشمن سے مقابلے کے لیے ایک منظم کمان نہیں تھی؛ مطلب یہ کہ ہمارے وسائل بہت محدود تھے، انقلاب کا ابتدائی زمانہ تھا، مشکلیں بہت زیادہ تھیں۔ اس طرح کی صورتحال میں امام خمینی نے وسائل سے عاری ایک انقلابی قوم کے لیے جنگ کو، قومی اور بین الاقوامی طاقت اور وقار کا ذریعہ بنا دیا۔ جنگ کی سازش دشمنوں نے تیار کی تھی تاکہ انقلاب کو نابود کر سکیں لیکن امام خمینی نے جنگ کو انقلاب کی تقویت اور اس کے تسلسل کا ایک وسیلہ بنا دیا اور اس خطرے کو ایک موقع میں تبدیل کر دیا۔ امام خمینی کے موقف میں، تسلسل کا مسئلہ یہ ہے۔

میں پھر تبریز کی مثال دوں گا۔ میں نے شہید باکری کو انقلاب سے پہلے دیکھا تھا؛ میرے ایک دوست جو تبریز یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، مرحوم باکری صاحب کو مشہد لے کر آئے اور میں ان سے ملا؛ ایک عام سے طالب علم تھے۔ امام خمینی نے یونیورسٹی کے ایک اسٹوڈنٹ کو ایک بڑی شخصیت، ایک بڑے کمانڈر اور ایک آئیڈیل میں تبدیل کر دیا، یہ امام خمینی کا کام تھا۔ مہدی باکری اور شہید قاسم سلیمانی جیسے لوگوں کو امام خمینی نے تیار کیا، امام نے انھیں وجود عطا کیا۔ انقلاب کے تسلسل کا کام اس طرح کا ہے۔ یہ نوجوانوں کو مسلسل، انقلابی شخصیات، انقلابی مردوں اور انقلاب کے علمبرداروں میں تبدیل کرتا ہے اور آگے بڑھاتا ہے۔

بنابریں انقلابی تحریک کے تسلسل اور جاری رہنے کا مسئلہ، کہ ہم نے کہا کہ 18 فروری کا واقعہ اس انقلابی تسلسل کا علمبردار تھا، ہمارے ملک کی آج اور کل کی زندگي کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہے؛ اسے ہمیشہ مد نظر رکھا جانا چاہیے، اس پر کام کرنا چاہیے، اس پر غور کرنا چاہیے اور یقینی طور پر یہ سبق سب نے امام خمینی سے سیکھا ہے، اسے ہم سب نے امام خمینی سے سیکھا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ انقلابی تحریک کے تسلسل کا مطلب کیا ہے؟ ہم نے اس کی کچھ مثالیں اور کچھ نمونے پیش کیے لیکن بنیادی طور پر تحریک اور کام کے تسلسل کے مصادیق کیا ہیں؟ انقلابی تحریک کے تسلسل کا مطلب یہ ہے کہ ہم انقلاب کے اہداف کو مد نظر رکھیں اور آج اور کل کی تمام ضرورتوں، اس وقت اور مستقبل کی ان ضرورتوں کو پیش نظر رکھیں جو ہمیں ان اہداف تک پہنچاتی ہیں اور جس طرح سے بھی ممکن ہو ان ضرورتوں کی تکمیل کریں؛ اس کا مطلب ہے انقلاب کا تسلسل۔ انقلابی اہداف کو پیش نظر رکھا جائے۔ ان اہداف تک رسائی کے لیے فطری طور پر کچھ چیزوں کی ضرورت ہے، ان ضروریات میں سے کچھ قلیل المیعاد ہیں اور ابھی کی ضرورتیں ہیں، ان میں سے بعض ضرورتیں مستقبل سے متعلق ہیں، آئندہ کل کے بارے میں ہیں جنھیں کل کے لیے آج ہی تیار کر لینا چاہیے۔ ان ضرورتوں کو ہمیں اپنی بساط بھر کوشش کر کے پورا کرنا چاہیے؛ یہ چیز، انقلابی تحریک کے تسلسل اور انقلاب کے جاری رہنے کا سبب بنتی ہے جس کے کچھ نمونے میں پیش کروں گا۔ اگلا سوال یہ ہے کہ ہم نے جو 'انقلابی اہداف' کی بات کی تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ملک کی پیشرفت، ملک میں سماجی انصاف، ملک کی مضبوطی، ملک میں اسلامی معاشرے کی تشکیل اور آخر میں نئے اسلامی تمدن اور عظیم اسلامی تمدن تک رسائي؛ یہ سب انقلاب کے اہداف ہیں۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ ان اہداف تک رسائي کے لیے، سماجی انصاف تک رسائي کے لیے، ملک کی حقیقی پیشرفت، کھوکھلی اور دعوے کی حد تک محدود رہنے والی پیشرفت نہیں بلکہ ہمہ گیر ترقی؛ مادی و معنوی دونوں طرح کی ترقی کے لیے اور اس اسلامی معاشرے تک رسائي کے لیے جس میں حقیقی معنی میں اسلامی احکام نافذ ہوں اور لوگ ان احکام کے نفاذ سے بہرہ مند ہوں اور آخر میں نئے اسلامی تمدن تک رسائی کے لیے کون کون سے کام ضروری ہیں، ہمیں ان کاموں کو اپنی طاقت اور توانائي کے مطابق انجام دینا چاہیے؛ ہر کسی کو اپنی استطاعت اور بساط کے مطابق؛ میں کسی طرح، فلاں ملکی عہدیدار دوسری طرح، وہ طالب علم کسی اور طرح اور اسی طرح دوسرے لوگ، میں اس کے بارے میں عرض کروں گا۔

میں کچھ مصادیق بتاتا ہوں۔ سائنسدانوں اور محققین کی کوشش؛ ایک سائنسداں اور ایک محقق جو کوشش کرتا ہے وہ انقلاب کے دوام کی سمت میں اٹھایا جانے والا ایک قدم ہے۔ دینی تعلیمی مراکز اور یونیورسٹیوں کے علماء کی کوشش اور تدریس، روزگار پیدا کرنے والوں اور مزدروں کی سرگرمیاں، صنعت و زراعت اور سروسز وغیرہ یہ سب ان چیزوں میں شامل ہیں جو اگر انقلاب کے اہداف کے نظرئے سے انجام دی جائيں تو انقلاب کے تسلسل کی مصداق ہیں۔ طالب علم کی کوشش، چاہے وہ یونیورسٹی میں ہو یا دینی تعلیمی مرکز میں؛ سماجی خدمات کے میدان کے کارکنوں کی کوشش، مومنانہ امداد کے میدان کے کارکنوں کی کوشش، جسے پچھلے دو تین برس میں مختلف معاملوں میں ایرانی قوم نے بہترین انداز میں انجام دیا اور اس کا مشاہدہ بھی کیا، فوجی دفاع کے میدان میں کام کرنے والوں کی کوشش، تشریح کے جہاد کا کام کرنے والوں کی کوشش، وہی چیزیں جن کاجناب آل ہاشم نے ابھی اپنی تقریر میں ذکر کیا اور رپورٹ دی کہ یہ چیزیں انجام پا رہی ہیں۔ حکومت کے خدمتگزار کارکنان، حکومت میں اور تینوں شعبوں (مجریہ مقننہ عدلیہ) میں جو لوگ خلوص اور صداقت سے خدمت کر رہے ہیں۔ سیاسی میدان میں حقائق کو برملا کرنے والے افراد؛ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو سیاسی میدان میں حقائق سامنے لاتے ہیں اور انھیں مختلف ذرائع ابلاغ میں عوام کے سامنے بیان کرتے ہیں اور بحمد اللہ آج سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا میں اور اسی طرح پرنٹ میڈیا اور زیادہ تر قومی میڈیا میں یہ کام، ذمہ دارای کا احساس کرنے والے افراد کی طرف سے بخوبی انجام پا رہا ہے۔ استقامت کے مراکز کی مدد؛ جو لوگ ہمارے خطے میں اور عالم اسلام میں استقامت کے مراکز کی مدد کر رہے ہیں، وہ در حقیقت انقلاب کے تسلسل اور انقلاب کے جاری رہنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ مختلف واقعات کے دوران میدان میں جانے کے لیے تیار ہیں، جیسے دفاع حرم کا معاملہ پیش آتا ہے، تو جو لوگ میدان میں جاتے ہیں، کبھی کبھی ملک کے اندر مختلف مسائل پیش آتے ہیں، جیسے 9 دی (30 دسمبر) کا واقعہ، البتہ تبریز میں 8 دی کو ہی، لوگ دوسروں سے ایک دن پہلے ہی میدان میں آ گئے، تو جو لوگ میدان میں آ جاتے ہیں، یہ سب، انقلاب کے تسلسل کے قدم ہیں؛ یہ سب، ایک عمومی تحریک کے اجزا ہیں جسے ہم 'انقلاب کے تسلسل کے قدم' کا نام دیتے ہیں اور یہ سارے کام، انقلاب کے بڑے اور بلند اہداف کو مد نظر رکھ کر انجام دیے جاتے ہیں۔

البتہ یہ کوششیں دو طرح کی ہیں؛ ان میں سے بعض کوششیں آج سے متعلق ہیں، آج کے مسائل ہیں جبکہ بعض کوششیں، مستقبل سے متعلق ہیں۔ اس وقت کی ضرورتوں کو، آج کی ضرورتوں کو عام طور پر قوم کے تمام افراد جلد ہی سمجھ جاتے ہیں اور معمولی سے اشارے سے انھیں سمجھ کر بلا جھجھک میدان میں آ جاتے ہیں۔ مقدس دفاع میں ایسا ہی تھا، امام خمینی کا ایک اشارہ، عوامی سیلاب کو میدان جنگ کی طرف روانہ کر دیتا تھا؛ ان حالیہ واقعات میں بھی ایسا ہی تھا، دفاع حرم کے معاملے میں بھی ایسا ہی تھا۔ البتہ اس مسئلے میں ایرانی قوم کی ہوشیاری اور بصیرت واقعی حیران کن ہے! کس طرح ضروری مواقع پر پوری ہوشیاری کے ساتھ میدان میں آ جاتی ہے جس کی واضح مثال، جیسا کہ میں نے عرض کیا، پچھلے عشروں میں محاذ پر موجودگي تھی، انقلاب مخالف عناصر سے مقابلے میں موجودگي تھی، سن انیس سو اناسی میں تبریز کا وہی واقعہ اس کی ایک مثال ہے اور اسی طرح کے نمونے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی پائے جاتے تھے اور دوسری بہت سی سرگرمیاں بھی تھیں۔ 30 دسمبر، انہی سرگرمیوں کی مثال ہے؛ لوگ خود سے، اپنے آپ ہی میدان میں آ گئے تھے، انھوں نے ضرورت محسوس کی اور اس ضرورت کو پورا کر دیا۔

ملک کی ضرورت کی سائنسی سرگرمیاں بھی ایسی ہی ہیں۔ فرض کیجیے کہ اسی کورونا کے معاملے میں، ملک کے نوجوان سائنسداں فورا کام میں مصروف ہو گئے؛ ہمیں قریب سے اس بات کی اطلاع تھی کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ جیسے ہی یہ مسئلہ پیش آیا کہ اس کے لیے ایک ویکسین تیار ہونی چاہیے، مختلف جگہوں سے، مختلف شعبوں میں، نوجوان سائنسداں کام میں مشغول ہو گئے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کا نتیجہ، ملک کے اندر مختلف طرح کی ویکسین کی تیاری ہے جنھیں لوگوں نے استعمال کیا اور ملک اس بات سے بے نیاز ہو گيا کہ دوسروں کی طرف ہاتھ پھیلائے اور دوسرے احسان جتا کر کچھ عدد ٹیکے دے دیں یا نہ دیں اور اگر ہم نے خود تیار نہ کیا ہوتا تو وہ نہیں دیتے۔ یہ وہی فوری ضرورت ہے جسے لوگ محسوس کر لیتے ہیں کہ ملک کی ضرورت ہے اور اسے پورا کرتے ہیں۔

اس فوری ضرورت کے کاموں کی تازہ ترین مثال، کچھ ہی دن پہلے بائيس بہمن (گيارہ فروری) کے جلوسوں میں لوگوں کی شرکت ہے۔ اس سال کی بائيس بہمن، ایک عجیب بائیس بہمن تھی؛ واقعی عوام کی جانب سے از خود حرکت میں آنے کا ایک واقعہ تھا؛ حقیقی معنی میں بغیر کسی پیشگی تیاری کے عوامی سطح پر رونما ہونے والا ایک واقعہ تھا جسے عوام نے انجام دیا اور واقعی یہ قابل تحسین عمل تھا۔ ان مشکلات کے باوجود جنھوں نے عوام کو گھیر رکھا ہے – ایک طرف کورونا، دوسری طرف معاشی مشکلات، اغیار کے زہریلے پروپیگنڈے ایک طرف اور بعض داخلی عناصر کی جانب سے ان پروپیگنڈوں کی افسوسناک مدد ایک طرف، اتنی ساری رکاوٹوں اور مشکلات میں گھرے ہونے کے باوجود قوم نے یہ عظیم الشان جلوس نکالا اور عام طور پر جو لوگ، جلوسوں میں عوام کی تعداد کا اندازہ لگاتے ہیں اور ہر سال رپورٹ دیتے ہیں، کیمروں وغیرہ کے ذریعے وہ بھیڑ کی تقریبا صحیح تعداد کا اندازہ لگاتے ہیں، انھوں نے ہمیں رپورٹ دی کہ ملک کے تمام صوبوں میں، دو یا تین صوبوں کو چھوڑ کر اس سال جلوس کے شرکاء کی تعداد پچھلے سال سے زیادہ تھی؛ بعض مقامات پر پچھلے سال سے دوگنا زیادہ تھا، بعض جگہوں پر پچاس فیصد زیادہ تھی، بعض علاقوں میں چالیس فیصد زیادہ تھی؛ ہر جگہ ہی ایسا تھا۔ عوام کا یہ قدم واقعی بہت عجیب اور بصیرت سے بھرا ہوا تھا۔ یہ واقعی قابل تحسین اور معنی خیز عمل ہے۔ تو یہ ملک کی اس وقت کی ضرورت سے متعلق ہے، جسے لوگ سمجھ جاتے ہیں اور خود ہی میدان میں آ جاتے ہیں اور جدت طرازی کرتے ہیں۔

کچھ چیزیں ہیں جو مستقبل کی ضرورت ہیں؛ انھیں بہت سے لوگ سمجھ لیتے ہیں اور انجام دیتے ہیں جبکہ بعض لوگ غفلت سے کام لیتے ہیں۔ مستقبل سے متعلق ضرورتوں سے میری مراد وہ ضرورتیں ہیں جن کے بارے میں اگر آپ نے آج نہیں سوچا اور ان کے لیے کوئي کام نہیں کیا تو کل آپ پھنس جائیں گے، یعنی کل آپ مشکل میں پڑ جائیں گے؛ اگر آج آپ نے اس کے بارے میں نہیں سوچا تو کل آپ کے لیے مشکل پیدا ہو جائے گي۔ مثال کے طور پر دانشوروں، سائنسدانوں اور محققین کی ٹریننگ، ایسا ہی ایک کام ہے۔ اگر آج ہم نے محققین کی ٹریننگ نہیں کی اور ایک بڑا علمی کام اور ایک سائنسی تحریک شروع نہیں کی تو پندرہ سال بعد، بیس سال بعد ہمارے پاس ایسے نمایاں سائنسداں نہیں ہوں گے جو دنیا کا مقابلہ کر سکیں یا دنیا کی سائنسی فرنٹ لائنوں سے آگے بڑھ سکیں۔ آج یہ کام – محققین اور سائنسدانوں کی ٹریننگ – ایک طویل المیعاد کام ہے۔

بچوں کی پیدائش اور افزائش نسل کا مسئلہ، جس پر میں اتنی زیادہ تاکید کرتا ہوں، اسی طرح کا معاملہ ہے۔ اگر آج ہم ا‌فزائش نسل کے بارے میں نہیں سوچیں گے اور بچوں کی پیدائش کے بارے میں آج غور نہیں کریں گے تو پندرہ سال بعد، بیس سال بعد دیر ہو چکی ہوگي؛ ہمارا ملک ایسا ہوگا جس کی پیشرفت کا لازمی عنصر، یعنی نوجوان، بقدر کافی موجود نہیں ہوگا۔ کل کے لیے آج سوچنا ہوگا۔

یا یہی ایٹمی توانائي کا مسئلہ کہ دنیا دن بدن ایٹمی توانائي پر زیادہ منحصر ہوتی جا رہی ہے، ہمیں بھی جلد یا بدیر پرامن ایٹمی توانائي کی شدید ضرورت پڑے گی۔ اگر آج ہم نے اس کے بارے میں نہیں سوچا، اگر آج اس مسئلے کے بارے میں کوشش نہیں کی تو کل دیر ہو جائے گي، ہمارا ہاتھ خالی ہوگا۔ جس وقت دنیا، اس شعبے کے ہر زاویے پر مسلط ہوگي، اس دن ہمارے لیے اس راہ میں چلنا اور آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔ لہذا آپ دیکھیے کہ دشمن محاذ، ہمارے ایٹمی مسئلے پر کتنے ظالمانہ طریقے سے دباؤ ڈال رہا ہے! پابندی، ایٹمی توانائي کی وجہ سے وہ بھی ایسی حالت میں جب وہ جانتے ہیں کہ یہ پرامن ہے۔ وہ نام لے کر کہتے ہیں کہ ایران، ایٹم بم کی تیاری سے، اتنے فاصلے پر ہے! یہ ساری فضول اور بے بنیاد باتیں ہیں؛ وہ خود جانتے ہیں کہ ہم اس چکر میں نہیں ہیں، ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش میں نہیں ہیں، اہم ایٹمی توانائي سے پرامن استفادے کے لیے کوشاں ہیں؛ وہ یہ بات سمجھ گئے ہیں، مگر وہ نہیں چاہتے کہ ایرانی قوم یہ عظیم اور بڑی سائنسی پیشرفت حاصل کرے اور اسی لیے وہ دباؤ ڈالتے ہیں کیونکہ قوم کو کل اس کی ضرورت ہوگي اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ کام جاری نہ رہے۔ اگر آج ہم نے مستقبل سے متعلق اور طویل المیعاد مسائل میں کوتاہی کی تو کل ہمارے سامنے مشکلات ہوں گي۔ ایٹمی معاہدے سے متعلق معاملوں میں سن دو ہزار پندرہ اور دو ہزار سولہ کے برسوں میں میرا اعتراض یہ تھا کہ اس معاہدے میں کچھ باتوں کا لحاظ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ بعد میں مشکلات پیش نہ آئيں؛ میرا اعتراض زیادہ تر یہی تھا، میں کہتا تھا کہ ان نکات کو پیش نظر رکھیے اور میں نے انھیں بار بار اس کی یاد دہانی کرائي لیکن ان میں سے بعض باتوں پر توجہ نہیں دی گئي اور بعد میں وہ مشکلات پیش آئيں جن کو سبھی دیکھ رہے ہیں۔ بنابریں، مستقبل پر نظر رکھنا اور مستقبل کے لیے تیار ہونا اہم ہے۔

یہیں پر میں ایک اہم نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انقلاب کی کامیابی کو یہ جو چار عشرے گزرے ہیں، ان میں انقلاب کے تسلسل کے لیے بہت زیادہ کام کیا گيا ہے اور وہ بھی ثمر بخش کام، ان میں سے کچھ کام عوام نے خود اپنے طور پر کیا ہے جبکہ کچھ کام سرکاری رہے ہیں۔ ان کچھ عشروں میں کافی بڑے بڑے کام انجام پائے ہیں جن کا بعض لوگ انکار کرنا چاہتے ہیں، انھیں چھپانا چاہتے ہیں۔ میں نے اس سے کچھ دن پہلے بھی ایک گفتگو میں کہا تھا کہ ہمیں، ملک میں پائے جانے والے موجودہ مسائل کو ان برسوں کے دوران انجام پانے والی بے شمار بڑی بڑی پیشرفتوں کو بھلائے جانے کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے(4)، انھیں نظر انداز نہیں ہونے دینا چاہیے۔

ہم نے بہت پیشرفت کی ہے، اس کے متعدد نمونے رہے ہیں؛ انہی میں سے ایک سائنسی پیشرفت ہے۔ ہم انقلاب کے بعد کے ان برسوں میں سائنسی پیشرفت کے لحاظ سے پوری دنیا سے آگے رہے ہیں۔ یہ میری بات نہیں ہے بلکہ عالمی اداروں کا اعتراف ہے؛ یعنی ہماری سائنسی پیشرفت کی رفتار عالمی اوسط سے کئي گنا تیز ہے، بعض نے کہا ہے کہ دس گنا اور بعض نے کہا ہے تیرہ گنا۔ علم و سائنس بہت اہم ہے: "العلم سلطان"(5) علم حقیقی معنی میں طاقت ہے۔ یہ جو مشہور شعر ہے کہ "توانا بود ہر کہ دانا بود"(6) بالکل صحیح ہے۔ علم و دانش سے ملک کو توانائي حاصل ہوتی ہے، طاقت حاصل ہوتی ہے۔ ہم نے مختلف سائنسی شعبوں میں ایسی ایسی پیشرفت کی ہے جس کے بارے میں، انقلاب کے ابتدائي دور میں ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہم خود انقلاب کے فرنٹ لائن میدانوں میں موجود تھے؛ ہمیں بالکل یقین نہیں آتا تھا کہ ہم ایٹمی توانائی کے شعبے میں، نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں، بایو ٹیکنالوجی کے معاملے میں، میڈیکل کے مختلف پیچیدہ اور سرجری کے انتہائي دشوار امور میں، بانجھ پن کے علاج کے سلسلے میں، اسٹیم سیلز اور مختلف اہم سائنسی امور میں ہم اس طرح سے پیشرفت کر سکیں گے اور بحمد اللہ ہم نے پیشرفت کی، ہمارے نوجوانوں نے حوصلے سے کام لیا، آگے بڑھے اور پیشرفت کی۔

بنیادی ڈھانچے یا بیسک انفراسٹرکچر، ایک پیشرفت سائنسی امور کے میدان میں تھی، دوسری ملک کے بنیادی ڈھانچوں کے بارے میں ہے۔ البتہ میں ان کا موازنہ نہیں کرنا چاہتا، جو لوگ اعداد و شمار سے سروکار رکھتے ہیں وہ موازنہ کریں، اتفاق سے موازنہ بھی بڑا دلچسپ اور شیریں ہے۔ پرامن راستوں، سڑکوں اور شاہراہوں، ریلوے لائنوں، ڈیموں کی تعمیر، گھروں کی تعمیر، ملک کے مختلف علاقوں تک پانی، بجلی اور گيس کی ترسیل، ان سارے امور میں ان عشروں میں جو پیشرفت ہوئي ہے وہ حیرت انگيز ہے، بہت اہم پیشرفتیں ہوئي ہیں اور یقینی طور پر اگر انقلاب اور جہادی سرگرمیاں نہ ہوتیں تو یہ ترقی و پیشرفت حاصل نہ ہوتی۔ مثال کے طور پر ایران خطے میں حفظان صحت و معالجے کا مرکز بن گيا۔ اس سے پہلے چھوٹی سے چھوٹی سرجری کے لیے جن کے پاس استطاعت اور پیسہ تھا وہ دوسرے ملک چلے جاتے تھے، آج علاقے کے ممالک کے افراد پیچیدہ ترین سرجری کے لیے ایران آتے ہیں۔ ان سروسز اور پیشرفتوں میں سے بعض میں تو، اسلامی انقلاب سے پہلے کی نسبت دسیوں گنا زیادہ پیشرفت ہوئي ہے اور یہ بہت اہم ہے؛ تو یہ سارے کام ہوئے ہیں اور یہ وہ خدمات ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

یہاں تک کہ معیشت کے میدان میں بھی ایسا ہی ہے۔ میں خود ان افراد میں سے ہوں جو معاشی مسائل میں خود پر تنقید کرتے ہیں؛ سماجی انصاف کے مسئلے میں، ثروت کی منصفانہ تقسیم کے میدان میں، کمزور طبقوں تک سہولتیں نہ پہنچنے کے بارے میں اور اسی طرح کے دوسرے مسائل میں، میری جانب سے تنقید ہوتی رہتی ہے لیکن اسی معیشت کے مسئلے میں بھی دنیا کے معروف معاشی مراکز کا کہنا یہ ہے کہ ایران میں اقتصادی انڈیکس کے سلسلے میں پہلے کی نسبت اہم پیشرفت ہوئي ہے، اس نے بڑے قدم اٹھائے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت ساری چیزوں کی پیداوار میں ہم خودکفیل ہوئے ہیں اور ملکی پیداوار کرنے والوں میں خود اعتمادی بھی آئي ہے اور یہ چیزیں لوگوں کے سامنے لائي جانی چاہیے۔ ان کارناموں کو لوگوں تک پہنچانے میں قومی میڈیا کی بڑی ذمہ داری ہے لیکن اس پر کما حقہ عمل نہیں ہوا ہے، یہ کام ہونا چاہیے یہ ان ضروری کاموں میں سے ایک ہے جن کی ذمہ داری قومی میڈیا پر ہے۔ جن جن لوگوں نے ان شعبوں میں سرگرمی سے کام کیا ہے، انھوں نے انقلاب کے تسلسل میں مدد کی ہے۔ البتہ ان برسوں میں کبھی کبھی کچھ غفلت اور تساہلی بھی ہوئي ہے اور شاید بدنیتی بھی رہی ہے، یہ چیزیں بھی تھیں لیکن یہ بڑے بڑے کام بھی انجام پائے ہیں اور اگر يہ غفلتیں نہ ہوتیں تو صورتحال بہتر ہوتی۔

میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انقلاب کے تسلسل اور انقلاب کے جاری رہنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی وجہ سے ہی آج بحمد اللہ انقلاب زندہ بھی ہے اور پر فروغ بھی ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ سامراجی محاذ اس طرح انقلاب کے مقابلے میں اور ایران کی انقلابی قوم کے مقابلے میں کھڑا ہو جاتا ہے اور اس طرح دشمنی کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب زندہ ہے۔ اگر انقلاب نہ ہوتا تو ان کے پاس اس کی کوئي وجہ نہ ہوتی کہ ایرانی قوم کے مقابلے میں اتنی زیادہ خباثت اور شیطنت دکھائيں۔ اب سوال یہ ہے کہ 'انقلاب کے زندہ ہونے' کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے انقلاب کے اہداف سے ملک کی نئی نسلوں کی دلبستگی اور وابستگی۔ آج لوگ، انہی اہداف کے دلبستہ ہیں جو انقلاب نے پیش کیے ہیں؛ یعنی قومی خودمختاری، قومی عزت، قومی آسائش، سماجی انصاف، اسلامی معاشرے کا عملی جامہ پہننا اور آخر میں، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، نئے اسلامی تمدن کی تشکیل؛ یہ سب انقلاب کے بڑے اہداف ہیں۔ ہمارے عوام آج ان اہداف سے لو لگائے ہوئے ہیں، ان کے دلبستہ ہیں، اگر کوئي کام ان کے بس میں ہو، کوئي بھی کچھ نہ کچھ کام کر ہی سکتا ہے، تو واقعی وہ کام انجام دیتے ہیں؛ یعنی ملک کی ایک عظیم اکثریت اس سے دلبستہ ہے۔ اب یہ بھی ممکن ہے کہ ادھر ادھر کچھ ایسے افراد بھی ہوں جو ساتھ دینے میں تھوڑے ڈھیلے ہوں یا ساتھ ہی نہ دیں لیکن ایرانی قوم، عمومی طور پر ان اہداف سے دلبستہ اور وابستہ ہے۔ قوم دلبستہ ہے، انقلاب زندہ ہے اور اس کے زندہ ہونے کا ایک ثبوت، سامراجی محاذ کی یہی دشمنی ہے جو ان اہداف پر، اسلامی نظام کے ڈٹے رہنے کی وجہ سے ہے۔

البتہ ہم کبھی کبھی سنتے ہیں کہ انقلاب، اپنے اہداف سے دور ہو گيا ہے؛ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اگر ملک، انقلاب کے اہداف سے دور ہو گيا ہوتا تو انقلاب کے دشمن، ایران کے اسلامی نظام، اسلامی جمہوریہ اور اسلامی ایران سے اتنی زیادہ دشمنی نہیں کرتے؛ خود یہ دشمنی اس بات کی علامت ہے کہ ملک اور اسلامی نظام، اہداف کے تئيں وفادار رہے ہیں اور ان اہداف کے پابند ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نظام، انقلاب کے اہداف سے دور ہو گيا ہے، وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ انقلاب سے وابستہ ہیں۔ میں اس بات کو نہیں مانتا، میں انقلاب سے ان کی دلبستگي کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔ جو شخص عیش و عشرت کی زندگي کے لیے کوشاں ہو اور عیش کی راہ میں ہی قدم اٹھا رہا ہو وہ ننگے پیر چلنے کی حمایت کے نعرے کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ انقلاب کا نعرہ، مستضعفین کی حمایت اور ننگے پیر والوں کی حمایت ہے؛ جو لوگ عیش و عشرت کی زندگي چاہتے ہیں اور پر تعیش زندگي کی راہ میں قدم اٹھا رہے ہیں، وہ اس نعرے کے وفادار نہیں ہو سکتے۔ انقلاب کا نعرہ، سامراج سے مقابلہ ہے، سامراجی کاموں اور سامراجی طاقتوں سے مقابلہ ہے؛ جو لوگ سامراج کے سامنے جھکنے کی بات کرتے ہیں، امریکا کے سامنے جھکنے کی پیروی کرتے ہیں، وہ اس انقلاب اور ان اہداف کے پابند نہیں ہو سکتے؛ یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایرانی قوم پر احسان کیا اور اسے استقامت کی طاقت عطا کی اور اس قوم نے مزاحمت و استقامت سے کام لے کر ملک کو یہاں تک پہنچا دیا اور ان شاء اللہ روز بروز اس استقامت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ خطے میں بھی ایرانی قوم کی استقامت نے اثر ڈالا ہے؛ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ خطے کے ممالک میں استقامت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور اس نے خطے میں امریکا کی طاقت کے جھوٹے بھرم کو اور سامراج کے جھوٹے بھرم کو توڑ دیا ہے، اقوام میں جرات پیدا ہو گئی ہے اور امریکا اور اس کی حرکتوں کے خلاف اقوام کی زبان کھل گئی ہے۔

ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور انقلاب کے تسلسل کے اس کام کو جاری رکھنا چاہیے۔ اپنے عزیز نوجوانوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ آج انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دشمن کس سمت میں چل رہا ہے اور دشمن نے کس چیز کو نشانہ بنا رکھا ہے، نوجوان اس کے ٹھیک برخلاف کام کریں اور اس کے بالکل برخلاف قدم اٹھائيں۔ میری نظر میں، میں حالات کو جس طرح دیکھ رہا ہوں، اس کے حساب سے دشمن نے قوم کو نشانہ بنا رکھا ہے، رائے عامہ کو نشانہ بنا رکھا ہے، نوجوانوں کی سوچ کو نشانہ بنا رکھا ہے، دشمن اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں، اپنے تھنک ٹینکس اور اسٹریٹیجی سینٹرز میں اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایرانی قوم کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو اس راہ سے ہٹا دیں۔ جو ہتھکنڈے وہ استعمال کر رہے ہیں، وہ فی الحال دو ہیں: ایک معاشی دباؤ ہے تاکہ عوام کو عاجز کر کے اسلامی نظام سے دور کر دیں، دوسرا ہتھکنڈہ زہریلے پروپیگنڈوں کا ہے؛ جھوٹ اور دروغگوئي، الزام تراشی، وہ انقلاب کے اہم ارکان پر تہمت لگاتے ہیں، انقلاب کے مختلف شعبوں پر الزامات لگاتے ہیں، انقلاب کی پیشرفت میں مؤثر مراکز کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، کبھی مجلس شورائے اسلامی پر، کبھی نگہبان کونسل پر، کبھی سپاہ پاسداران پر؛ آج سپاہ کی باری ہے، سپاہ پر الزامات لگا رہے ہیں، زہریلے پروپیگنڈے کر رہے ہیں اور اسی کے ساتھ شہید سلیمانی جیسے عظیم الشان شہید پر بھی۔ اگر ان میں ہمت ہوتی اور وہ لوگوں کے سخت ردعمل سے نہ ڈرتے تو امام خمینی کی بھی اہانت کرتے؛ لیکن ان میں اس کی جرئت نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ لوگوں کا ردعمل بڑا سخت ہوگا۔ بنابریں یہ دو ہتھکنڈے، نظام سے لوگوں کو دور کرنے کے لیے دشمن کے اختیار میں ہیں؛ لوگوں کے افکار اور ان کی سوچ میں تحریف کے لیے دشمن نے یہ دو راستے اختیار کیے ہیں: معاشی دباؤ – جس کا ایک راستہ پابندیاں وغیرہ ہیں اور دوسرا راستہ، جھوٹے پروپیگنڈے اور میڈیا میں دروغگوئي؛ یعنی معاشی اور تشہیراتی دشمنی۔ نوجوانوں کو ان کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے؛ ایرانی قوم کو ان دو ہتھکنڈوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے۔ معاشی دباؤ کو اندرونی کوشش، ملکی کوشش سے، پابندیوں کو ناکام بنا کر اور سفارتی کوششوں کے ذریعے – جیسا کہ ہمارے عزیز بھائی اس میں مصروف ہیں - ناکام بنانا چاہیے؛ ہمارے انقلابی بھائي پابندیوں کو ہٹوانے اور فریق مقابل کو تیار کرنے میں بھی مصروف ہیں اور یہ بھی اچھی بات ہے لیکن بنیادی کام، ملکی پیداوار اور داخلی معیشت کو متحرک بنا کر پابندیوں کو ناکام بنانا ہے۔ یہ نالج بیسڈ کمپنیاں بہت اہم ہیں اور واقعی نالج بیسڈ معیشت اور نالج بیسڈ کمپینوں کو تیار کرنا بہت اہم قدم ہے۔ اسے فروغ دینا چاہیے اور بڑھاتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک طرف سے اور دوسری طرف سے دشمن کی میڈیا وار اور زہریلے پروپیگنڈوں کو ناکام بنانے کی کوشش۔

مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ایرانی قوم پر اپنی توفیقات میں، فضل و کرم میں اور برکتوں میں اضافہ کرے گا، ایرانی قوم کو ان شاء اللہ کامیاب کرے گا کہ وہ چوٹیوں کو سر کرے، ہمارے عزیز شہیدوں کو پیغمبر کے ساتھ محشور کرے گا اور ہمارے عظیم الشان امام (خمینی) کو، جو اس عظیم تحریک کے بانی ہیں، پیغمبرخدا اور اولیائے الہی کے ساتھ محشور کرے گا اور انھیں عظیم اجر و ثواب عطا کرے گا اور ایرانی قوم، آذربائيجان کے عوام اور تبریز کے عوام پر ان شاء اللہ، خدا کے مسلسل الطاف نازل ہوتے رہیں گے۔ میری دعا ہے کہ ان شاء اللہ آپ سب کامیاب رہیں۔ آپ لوگوں نے جو پروگرام کیا، تلاوت قرآن، بہت اچھا ترانہ اور جناب آل ہاشم کی تقریر اور وہ مصائب جو ہمارے عزیز بھائي نے پڑھے، ان سب کا شکر گزار ہوں۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو کامیاب کرے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں، جو میڈیکل پروٹوکولز پر عملدرآمد کے سبب مصلائے تبریز میں موجود لوگوں کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے انجام پائي، تبریز کے امام جمعہ اور مشرقی آذربائيجان میں ولی فقیہ کے نمائندے حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد علی آل ہاشم نے تقریر کی۔

(2) منجملہ: صحیفۂ امام خمینی، جلد 3، صفحہ 353، آذربائيجان کے عوام کے نام پیغام (27/2/1978)، ایضا، صفحہ 359، شہدائے تبریز کے چہلم کی مناسبت سے ایرانی قوم کے نام پیغام (3/4/1978)۔

(3) منجملہ: صحیفۂ امام خمینی، جلد 7، صفحہ 449، تبریز کے کچھ لوگوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تقریر (23/5/1979)

(4) اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائيہ اور ائير ڈیفنس کے کچھ کمانڈروں اور اہلکاروں سے ملاقات میں تقریر (8/2/2022)

(5) شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، جلد 20، صفحہ 319

(6) شاہنامۂ فردوسی، "توانا بود ہر کہ دانا بود --- زدادنش دل پیر برنا بود" (جو بھی عالم ہوتا ہے اس کے لیے ہر کام ممکن ہوتا ہے اور علم سے بوڑھے کا دل بھی جوان ہو جاتا ہے)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .